اردو ویب سائٹ - بیٹا ورژن

علامہ امینیؒ، جنہیں ان کی عظیم تالیف "الغدیر" کی وجہ سے دینی دنیا میں بے پناہ قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، بیماری کے ایام میں ایک سوال کے جواب میں حضرت عباس علیہ‌السلام سے محبت کی اتنی گہری اہمیت بیان فرماتے ہیں کہ یہ عشق کو گویا محکِ ایمان قرار دیتا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کے مطابق، کتاب "داستان‌هایی از علما" یعنی "علما کی حکایتیں" کے عنوان سے علی رضا خاتمی کی کتاب میں بزرگان دین کی سیرت سے ماخوذ پند آموز واقعات پیش کیے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک واقعہ حضرت آیت‌الله سید محمدحسین حسینی طہرانیؒ اپنی کتاب "معادشناسی" میں نقل کرتے ہیں:

ایک دن ایک معمّم شخص مرحوم علامہ امینیؒ کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ اس وقت علامہ سخت بیمار تھے اور پیٹھ کے بل لیٹے ہوئے تھے۔

عیادت کے دوران اس مہمان نے سوال کیا: اگر کوئی شخص حضرت عباس علیہ‌السلام سے محبت نہ رکھتا ہو تو کیا اس کا ایمان متاثر ہوتا ہے؟

علامہ امینیؒ اس سوال پر سخت متأثر ہوئے۔ بیماری کے باوجود اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا:

"حضرت ابوالفضل علیہ‌السلام تو بہت بلند مقام ہستی ہیں؛ اگر کوئی شخص حضرت ابوالفضل کے نوکروں کا نوکر ہونے کے لحاظ سے میرے جوتے کے تسمے سے بھی دوستی و محبت نہ رکھے تو والله وہ آگ میں جا گرے گا!"

ماخذ: معادشناسی، جلد ۷، ص ۸۳، حضرت آیت‌الله سید محمدحسین حسینی طہرانی

یہ جملہ صرف ایک جذباتی اظہار نہیں بلکہ حضرت عباس علیہ‌السلام کے مقام و مرتبے کی عکاسی کرتا ہے۔ ان سے محبت نہ رکھنا، درحقیقت ولایت سے انکار اور وفاداری کی نفی کے مترادف ہے جو ایمان کے بنیادی اصولوں سے ٹکراتا ہے پس حضرت عباس علیہ‌السلام سے عشق و عقیدت نہ صرف ایک روحانی رابطہ ہے بلکہ نجاتِ اُخروی کا قوی سہارا بھی ہے۔

 

آب و ہوا
نقطۂ نظر اور آراء

مضامین کی ذمہ داری ان کے مصنفین پر ہے، اور اس کی اشاعت کا مطلب ان تبصروں کی منظوری نہیں ہے۔