اردو ویب سائٹ - بیٹا ورژن

محمد حسن اختری نے اتحاد اور رہبر معظم کی پیروی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ انتہا پسندانہ اقدامات انفرادی ہیں اور نظام کی نمائندگی نہیں کرتے۔ ان کے مطابق، انتہا پسند امیرالمؤمنین (ع) کے زمانے میں بھی تھے، لہٰذا اصل توجہ داخلی تقسیم کے بجائے قومی اتحاد اور رہبری کی حمایت پر ہونی چاہیے۔

جماران نیوز ایجنسی: عالمی اہل بیت اسمبلی کی سپریم کونسل کے سربراہ نے سید محمد خاتمی کی شیخ حسین انصاریان سے ملاقات پر بعض لوگوں کے ردعمل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: نظام میں ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ کوئی کسی شخصیت سے ملاقات کرے اور ہم پوچھیں کہ اس نے ایسا کیوں کیا! ہر شخص کا اپنا انداز اور طریقہ ہوتا ہے۔

 

وہ، جو حزب اللہ لبنان کی مرکزی کونسل کی رکنیت اور شام میں ایرانی سفارت کا تجربہ رکھتے ہیں، حج کے ایام میں سعودی عرب کے خلاف ایک عالم دین کے متنازع بیانات کے بارے میں بھی کہتے ہیں: جب کچھ لوگوں نے سعودی سفارت خانے پر حملہ کیا تو میں ان لوگوں میں شامل تھا جنہوں نے اسی وقت اس اقدام کی مذمت کی۔ ایسے رویوں کا مقابلہ کرنا چاہیے اور ان کی اصلاح اور وضاحت کرنی چاہیے۔ لیکن دوسری طرف، مرکزی نقطے یعنی وحدت و یکجہتی، رہبری کی راہ پر گامزن رہنے اور امام (رح) کی راہ کو جاری رکھنے پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔

 

جماران کے نمائندے کی حجت الاسلام والمسلمین محمد حسن اختری کے ساتھ تفصیلی گفتگو درج ذیل ہے:

 

سوال: ہم سالوں سے وحدت کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ آپ عالم اسلام میں وحدت کے مسئلے کے علمبرداروں میں سے ہیں۔ ملک میں ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں جو اس نظریے سے بالکل مطابقت نہیں رکھتے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ مثال کے طور پر، ایک شخص اٹھتا ہے اور مکہ جاتا ہے، وہاں ایک ویڈیو جاری کرتا ہے جو سعودی عرب اور ایران کی حکومتوں اور دیگر مسائل کی بنیادوں پر سوال اٹھاتا ہے، پھر واپس آتا ہے اور پھولوں سے اس کا استقبال کیا جاتا ہے، بغیر کسی ردعمل کے۔ دوسری طرف، ہم دیکھتے ہیں کہ جناب سید محمد خاتمی قابل قدر خطیب شیخ حسین انصاریان سے ملنے جاتے ہیں اور انتہا پسند اس معاملے کو غلط رنگ دیتے ہیں۔ ان کی تعداد کم ہے، لیکن ان کی آواز بلند ہے؛ یہاں تک کہ شیخ انصاریان کو بھی ردعمل دینے پر مجبور ہونا پڑا۔

میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ یہ رویے اس ملک میں آپ کے کام اور وحدت کو کتنا نقصان پہنچاتے ہیں؟ کیا اب وقت نہیں آ گیا کہ ہم رنجشوں کو ایک طرف رکھ دیں اور جناب سید محمد خاتمی کو ایک اثاثے کے طور پر دیکھیں، یا اس شخص کو جو فلاں مرجع کے دفتر سے اٹھتا ہے اور بغیر کسی خرچ کے مکہ جا کر یہ تخریب کاری کرتا ہے؟

 

آپ ان مسائل کا جائزہ کیسے لیتے ہیں؟ ہم امام (رح) کے نقطہ نظر سے آپ کی نصیحتیں بھی سننا چاہتے ہیں۔ آپ نجف میں 14 سال تک امام کے شاگرد رہے۔ براہ کرم امام (رح) کے نقطہ نظر سے ملک میں اتحاد، ہمدردی اور اتفاق کے مسئلے کی وضاحت فرمائیں۔ ہم آپ کی نصیحتیں سننا چاہتے ہیں اور اگر آپ کا کوئی شکوہ ہے تو بیان کریں۔

 

جواب: یہ حضرت امام (رح) کی برسی کا موقع ہے اور یہ 36ویں برسی ہے جس میں ہم ان کی یاد منانے، ان کا حق ادا کرنے اور حضرت امام (قدس سرہ) کی بارگاہ میں اپنی عقیدت کا اظہار کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ آج ہم عالم اسلام میں جو کچھ دیکھ رہے ہیں، اسلامی بیداری سے لے کر مقاومت، امت مسلمہ کی وحدت اور ہمارے ملک کی ترقی تک، یہ سب امام (قدس سرہ) کے فکری اور نظریاتی فیوض و برکات اور ان کی لازوال تعلیمات کا نتیجہ ہے جو انہوں نے آج کی دنیا کو عطا کیں اور الحمدللہ وہ شرمندہ تعبیر ہوئیں۔ ان کامیابیوں کا ہر حصہ، خواہ وہ بین الاقوامی سطح پر ہو یا داخلی میدان میں، متعدد اور متنوع مباحث پر مشتمل ہے جن سب پر توجہ دی جانی چاہیے اور انہیں ایک واحد فریم ورک میں جانچا جانا چاہیے۔

 

یہ فریم ورک وہی "اسلام ناب محمدی (صلی اللہ علیہ و آلہ)" ہے جس کے حضرت امام (رح) احیاء کرنے والے تھے اور انہوں نے ہمارے معاشرے میں اسلام کو نئی زندگی بخشی۔ انہوں نے یہ عظیم برکتیں عطا کیں اور الحمدللہ آج اس راستے کو عظیم الشان رہبر انقلاب حضرت آیت اللہ العظمیٰ امام خامنہ ای (مدظلہ العالی) نے جاری رکھا ہوا ہے۔ حضرت امام (قدس سرہ) نے اپنی زندگی میں اپنی الہٰی بصیرت اور وسیع افق کے ساتھ، رہبر اور جانشین کی ضرورت پر زور دیا اور نصیحت کی، یہاں تک کہ واضح طور پر اس موضوع کو بیان فرمایا۔ آج رہبر معظم انقلاب کے ذریعے یہ راستہ اور امام کی لائن جاری ہے اور وہی امام (رح) کا راستہ ترقی اور پیشرفت کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔

 

ان سب کو ایک واحد نظام اور یکساں نظر سے دیکھنا چاہیے۔ یہ ناقابل تقسیم اجزاء ہیں؛ جیسا کہ قرآن کریم میں آیا ہے: کچھ لوگ ایک حصے پر ایمان لاتے ہیں اور دوسرے حصے کا انکار کرتے ہیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ کچھ کو قبول کیا جائے اور کچھ کو چھوڑ دیا جائے؟

میں نے اپنی گفتگو کا آغاز امام باقر (علیہ السلام) کی شہادت اور حضرت امام (رح) کی برسی پر تعزیت سے کیا، کیونکہ یہ ایام انسان کے لیے بہت تقدیر ساز ہیں۔

 

خود حضرت امام اور ان کی تحریک، اپنی ابتدا سے لے کر اسلامی انقلاب کی کامیابی تک اور آج تک اور ان کی رحلت کے دن تک، الحمدللہ ایک ارتقائی عمل سے گزری ہے اور ہمیشہ ترقی کی ہے۔ ہمیں ان دنوں کو "ایام اللہ" کے طور پر پہچاننا اور ان کی قدر کرنی چاہیے۔

 

عظیم دین اسلام کے اہم معیارات میں سے ایک امت مسلمہ کی وحدت، مسلم معاشرے کا اتحاد، اسلامی مذاہب کا اتحاد اور ان کے مابین قربت ہے، جس کے لیے امام (رح) نے رہنمائی بھی فرمائی، تعلیم بھی دی اور عملی اقدامات بھی کیے۔ اسی طرح فلسطین کا مسئلہ، جو ایک اصولی مسئلہ ہے۔ میرے نزدیک، بہت سے لوگ امام (رح) کے فلسطین اور اسرائیل کے خلاف جدوجہد کے نظریے کو 1961 سے سمجھتے ہیں، لیکن میں اس نظریے کو 1948 اور دوسری جنگ عظیم کے بعد سے دیکھتا ہوں؛ جب انگریزوں نے صیہونیوں کو اس خطے میں آباد کیا، ان کی حمایت کی اور ان کے لیے مقام اور طاقت بنائی۔ امام (رح) نے اسی وقت سے قیام کیا اور اسرائیل کے خطرے اور فلسطین کے مسئلے سے اس وقت کے مراجع کو آگاہ کیا اور ان سے مؤقف اختیار کرنے کا مطالبہ کیا۔ اسی وقت سے، امام (رح) نے فلسطین کے مسئلے اور امریکہ کے خلاف "شیطان بزرگ"، "عالمی سامراج" اور "استکبار" کے طور پر جدوجہد پر مختلف تعبیرات کے ساتھ اپنے بیانات میں، انقلاب سے پہلے سے لے کر بعد تک اور اپنی زندگی کے آخر تک ہمیشہ زور دیا۔ اسی طرح دنیا کے مظلوموں اور کمزوروں کی حمایت، جسے وہ "محروموں اور مستضعفین کی حمایت" کے عنوان سے بیان کرتے تھے، ان کے بیانات میں واضح ہے۔

 

یہ بین الاقوامی سطح پر تھا۔ داخلی سطح پر بھی ملک کی ترقی کے لیے راہ ہموار کرنا، جو امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کے کلام میں "اہلِ شہر کی اصلاح"، "شہروں کی تعمیر" اور "ملک کی تعمیر نو" کے طور پر آیا ہے، امام (رح) کی تاکید کا مرکز تھا۔

 

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ہمیں یونیورسٹیوں کو منظم کرنا چاہیے اور ایسا ماحول فراہم کرنا چاہیے تاکہ ایرانی نوجوان اپنی صلاحیتوں کو نکھار سکیں۔ آج یہ کامیابیاں امام (رح) کے اسی نظریے سے ماخوذ ہیں۔ ان بنیادوں پر امام (رح) نے آئین میں بھی توجہ دی، جو نجف اشرف میں اسلامی حکومت کے بارے میں ان کے نظریات اور دلائل سے ماخوذ ہے۔ انہوں نے وہاں حکومت کے مقام کی وضاحت کی اور شبہات کا جواب دیا۔ یہاں تک کہ اس وقت انہوں نے مخالفتوں کی پیش گوئی کی اور نظام کی تشکیل اور اسلامی حکومت کے قیام میں اس سوال کا جواب دیا کہ "علماء کو انتظامی امور میں کیوں مداخلت کرنی چاہیے؟" اور فرمایا: "کیا جب پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کامیاب ہوئے تو انہوں نے حکومت کرنے کے لیے چار لوگوں کو تلاش کیا؟ خود پیغمبر نے حکومت اپنے ہاتھ میں لی۔" امام (رح) نے ان تمام شبہات کا جواب دیا۔

 

عوام کی خدمت کا مسئلہ بھی امام (رح) کی تقاریر میں ہمیشہ زیر بحث رہا۔ یہاں تک کہ انہوں نے فرمایا: "میں قوم کی صف میں کھڑا ہوں"۔ یا اجلاسوں میں حکام کو خبردار کیا کہ اگر آپ نے عوام کی بات نہ سنی تو میں آپ کے سامنے کھڑا ہو جاؤں گا۔ اسی طرح دانشوروں اور یونیورسٹی کے گروہوں کو، جو منحرف نعرے لگاتے تھے، واضح طور پر فرمایا: "انقلاب نے آپ کو جیلوں سے نجات دلائی۔ آپ جیلوں میں سڑ رہے تھے۔ انقلاب نے آپ کو آزادی دی، لیکن آج آپ نے قلم اٹھا لیا ہے اور انقلاب کے خلاف سرگرم ہیں۔" یہ سب ان متعدد مسائل کا حصہ ہیں جنہیں ہمیں ایک جامع نظر سے دیکھنا چاہیے۔ عوام کی ہمدردی، علماء کی ہمدردی، عوام کی حکومت کے ساتھ ہمدردی، حاکم کی محکوم کے ساتھ، امام کی امت کے ساتھ اور امت کی امام کے ساتھ ہمدردی، ہمیشہ امام (رح) کے نزدیک اہم رہی۔ ہمیں واقعی ان مقاصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

 

اگر ہم کسی مسئلے جیسے کہ ایک ملاقات کو دیکھتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ ایسا کیوں ہوا، تو ہمیں دیکھنا چاہیے کہ کیا جب ہم ان مسائل پر حساسیت دکھاتے ہیں، تو کیا ہم نے امام (رح) کے دیگر مقاصد اور نظریات کو بھی اتنی ہی اہمیت دی ہے یا نہیں؟! مجھے واقعی شکوہ ہے۔ ذاتی طور پر مجھے اپنے بہت سے دوستوں سے، ان لوگوں سے جو امام (رح) کی خدمت میں تھے اور بعد میں امام اور انقلاب سے واقف ہوئے، شکوہ ہے۔ آج جب اسرائیل اور صیہونی حکومت کا مسئلہ سامنے آتا ہے اور وہ کھلم کھلا فلسطین کے خلاف نعرے لگاتے ہیں، تو ہم خاموش رہتے ہیں۔ امام (رح) نے فلسطین کے بارے میں کیا کہا؟

آج ہم سب دیکھ رہے ہیں کہ شام کے واقعات کے بعد، اسرائیل نے آکر شام کے تمام فوجی اڈے، دفاعی ہتھیار اور یہاں تک کہ تحقیقی مراکز کو بھی ملیا میٹ کر دیا۔ کیا ان حضرات کو اپنا دفاع نہیں کرنا چاہیے تھا؟

 

کیا اس صیہونی حکومت کے ساتھ سمجھوتہ کیا جا سکتا ہے؟

ایک ایسی حکومت جس نے موقع ملتے ہی اتنی تباہی مچائی؟ یہاں تک کہ مصر، جو پہلا ملک تھا جس نے کیمپ ڈیوڈ میں اسرائیل کے ساتھ معاہدہ کیا، آج اپنی فوجوں کو سرحد پر لے آیا ہے، کیونکہ اسے ڈر ہے کہ جو کچھ شام کے ساتھ ہوا، وہی ان کے ساتھ بھی نہ ہو۔ مصر یہ نہیں بھولا کہ جمال عبدالناصر کے زمانے میں، پہلے ہی فضائی حملے میں مصر کے 400 لڑاکا طیارے تباہ ہو گئے تھے اور انہیں ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔ کیا ہمیں ان جرائم کے خلاف مؤقف اختیار نہیں کرنا چاہیے؟

 

کیا یہ وہی اسرائیل ہے جس کے ساتھ کچھ لوگ سیاسی استاد یا تجزیہ کار کے طور پر مفاہمت کی بات کرتے ہیں؟ ہمیں کس کے ساتھ مفاہمت کرنی چاہیے؟ اس اسرائیل کے ساتھ کہاں سمجھوتہ ہو سکتا ہے؟ اسرائیل کا کون سا ادارہ قابل اعتماد ہے؟ کون سی مفاہمت ممکن ہے؟

 

جب ہم لبنان یا لبنانی مقاومت یا حزب اللہ سے کہتے ہیں کہ وہ اسرائیل سے کیوں لڑ رہے ہیں، تو کیا آپ میں سے کسی نے سوچا ہے کہ لبنانی اسرائیل کے ساتھ جنگ میں کب گئے؟ اسرائیل نے لبنان پر قبضہ کیا۔ جس دن اسرائیل نے لبنان پر قبضہ کیا، اس دن حزب اللہ کا وجود نہیں تھا۔ اس وقت جناب امام موسیٰ صدر موجود تھے۔ 1967 میں پہلی بار اسرائیل نے لبنان کے ایک حصے پر قبضہ کیا۔ اس کے بعد 1973 میں ایک اور حصہ لیا اور فلسطینیوں کو بے گھر کر دیا۔ جناب امام موسیٰ صدر نے ان کے لیے کیمپ بنائے اور ان کی حمایت کی۔ پھر 1982 میں اسرائیل جنوبی لبنان تک پیش قدمی کر گیا اور آدھے لبنان پر قبضہ کر لیا۔ لبنانی عوام نے اپنا دفاع کیا اور اس وقت سے حزب اللہ کی تشکیل ہوئی۔ پس حزب اللہ اپنے دفاع کے لیے وجود میں آئی، نہ کہ اسرائیل پر حملہ کرنے کے لیے۔ ہم ان حقائق پر توجہ کیوں نہیں دیتے؟

 

آج جناب ٹرمپ کھلم کھلا کہتے ہیں: "ہم آپ کے تمام جوہری مراکز کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔" کیا ہم اور یہ تمام حضرات واقعی اس پر راضی ہیں کہ وہ ایسا کریں؟

میرا ماننا ہے کہ یہ وہ مقام ہے جہاں ہمیں کھڑا ہونا اور متحد ہونا چاہیے۔ آج ہمارے رہبر ہمارے علمبردار ہیں اور ہم سب کو ان کے مؤقف کی حمایت کرنی چاہیے۔ جب رہبر معظم انقلاب کوئی بات فرماتے ہیں، تو ہم سب کو یک زبان ہو کر اس کا دفاع کرنا چاہیے۔

 

جہاں تک رویوں کا تعلق ہے، تو ہر معاشرے میں ایسے افراد ہوتے ہیں جو کبھی کبھار انفرادی اقدامات کرتے ہیں۔ ایک شخص کوئی انٹرویو دے سکتا ہے یا کوئی بات کہہ سکتا ہے، لیکن وہ ایک عام فرد ہو، نہ کہ کوئی ذمہ دار یا نمایاں شخصیت جس کی باتوں کا زیادہ وزن ہو {ایسی صورت میں اسے محتاط رہنا چاہیے}۔ جیسا کہ جب کچھ لوگوں نے سعودی سفارت خانے پر حملہ کیا تو میں ان لوگوں میں سے تھا جنہوں نے اسی وقت اس اقدام کی مذمت کی۔ ایسے رویوں کا مقابلہ کرنا چاہیے اور ان کی اصلاح اور وضاحت کرنی چاہیے۔ لیکن دوسری طرف، مرکزی نقطے یعنی وحدت و یکجہتی، رہبری کی راہ پر گامزن رہنے اور امام (رح) کی راہ کو جاری رکھنے پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔

 

سوال: تو جو لوگ مکہ میں وہ کلپ جاری کرتے ہیں یا جو لوگ اس ملاقات کی وجہ سے شیخ حسین انصاریان کی توہین کرتے ہیں، یہ انفرادی حرکات ہیں اور ان کا نظام اور حکام سے کوئی تعلق نہیں؟

 

جواب: جی ہاں، نظام میں ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ کوئی کسی شخصیت سے ملاقات کرے اور ہم پوچھیں کہ اس نے ایسا کیوں کیا! ہر شخص کا اپنا انداز اور طریقہ ہوتا ہے۔ لیکن اگر ہمارے بنیادی مؤقف رہبری، ان کی حمایت، جمہوریہ اسلامی کی عزت، خود مختاری اور طاقت کی حمایت پر مبنی ہیں، تو ہمیں اس نکتے پر توجہ دینی چاہیے کہ ہمارا ملک جنگ کے دوران ایک خاردار تار کے لیے بھیک مانگتا تھا، لیکن آج دنیا کہتی ہے کہ فلاں ملک کو ڈرون یا میزائل فروخت نہ کرو۔ ہم اس مقام پر پہنچے ہیں۔

 

سوال: کیا آپ کے خیال میں اب وقت نہیں آ گیا کہ انتہا پسندوں کو مزید موقع نہ دیا جائے؟

 

جواب: انتہا پسند امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کے زمانے میں بھی تھے، امام حسن مجتبیٰ (علیہ السلام) کے زمانے میں بھی موجود تھے اور ہر دور میں مختلف عنوانات کے ساتھ موجود رہے ہیں۔ ہمیں رہبری کو ایک چراغِ راہ کے طور پر دیکھنا چاہیے۔ ان کی باتیں اور نصیحتیں ہماری رہنمائی کرتی ہیں۔ اگر ہم کسی بھی وجہ سے غلط راستے پر چلے گئے یا کسی راستے کو درست سمجھا، لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ دشمنوں کے کیا مقاصد ہیں، تو ہمیں واپس آنا چاہیے اور ہاتھ میں ہاتھ ڈالنا چاہیے۔

 

آب و ہوا
نقطۂ نظر اور آراء

مضامین کی ذمہ داری ان کے مصنفین پر ہے، اور اس کی اشاعت کا مطلب ان تبصروں کی منظوری نہیں ہے۔